مُصَوَّر کتابیں اور "قاعدہ بے قاعدہ

کتاب بازار لاہور کے کشمیری بابا سلامت رہیں۔ ان کا فرشی سٹال آسمان کی خبریں لاتا ہے۔ ایسی کتابیں کہ دیکھیں نہ سنیں۔ قیمت اتی سی کہ شرم پانی پانی ہوتی ہے۔ اول تو مزاج دان ، قاری کے ذوق کی کتاب دکھلائیں گے ، قیمت پوچھو تو شرافت کی مورت بن جائیں گے۔ تقاضے …

کتاب بازار لاہور کے کشمیری بابا سلامت رہیں۔ ان کا فرشی سٹال آسمان کی خبریں لاتا ہے۔ ایسی کتابیں کہ دیکھیں نہ سنیں۔ قیمت اتی سی کہ شرم پانی پانی ہوتی ہے۔ اول تو مزاج دان ، قاری کے ذوق کی کتاب دکھلائیں گے ، قیمت پوچھو تو شرافت کی مورت بن جائیں گے۔ تقاضے کے نام پر سو دو سو۔ حد ہے ، نہ بھائی نہ ، ایسی شرافت نرا خسارا ہے۔ اے دوستو ! یہ نیک شعار جتنا مانگیں ، اسے دونا ضرور کرنا ، خوش رہو گے۔

پچھلے ہفتے شوکت تھانوی کی ایسی کتاب تھمائی کہ جی خوش ہو گیا۔ قاعدہ بے قاعدہ۔ ادیبوں کا تصویری البم ، ہاتھ کے بنے عمدہ خاکے ۔ ہر ادیب کی کہانی ، دو صفحوں کی زبانی۔ صفحے ایسے زندہ کہ ریشہ ریشہ دکھائی دیتا ہے۔ زعفرانی رنگ کے پنوں پر سیاہی گویا اعتکاف بیٹھی ہے ، جمی جمائی نشست۔
جملے چھوٹے ، باتیں بڑی ۔ ابن انشا کی اردو کی آخری کتاب یاد آتی ہے

آج سے دو دہائی پہلے جب کتابوں کا شوق چرایا تو اس میں تصویری کتابوں کو بہت دخل تھا۔قاعدوں کی تصویریں اور ان کا بے لگام تخیل۔ ایسی دنیا جس میں ہر متضاد چیز دوست ہوتی تھی ، کسی کو کسی سے خوف نہیں

ہاتھی کو چیونٹی نے پیٹا
گھوڑا گھاس نہ کھائے
اونٹ نے آ کر دھول مچایا
مچھلی گانا گائے

نظمیں بھول گئیں لیکن تصویریں یاد رہیں۔ ذرا بڑے ہوئے تو والد صاحب نے بتایا ایسے قاعدوں کو تصویری کہتے ہیں یعنی Illustrated. اس زمانے میں ہر دوسری کتاب تصویری ہوتی تھی۔ انگریزی کتابوں کا تو پوچھو متی۔ بڑے سے بڑے ناول کے تصویری ایڈیشن کتاب خانوں کی زینت تھے۔

بچوں کا شیکسپیئر ، جوانوں کی آسٹن ،بڈھوں کا ڈکنز۔ دستی کتابیں ، جیبی ایڈیشن ، چیپ بکس اور کیا کیا کچھ۔ خدا جانے تصویری کتابیں کاہے دم توڑنے لگیں۔ اب تو شاید ہی کوئی کتاب مصور چھپتی ہو۔
(جہلم بک کارنر نے کلاسیک سیریز کے نام سے کچھ عمدہ مصور ناول چھاپے ہیں)

بچپن میں والد صاحب کے پاس ایک ڈائری دیکھی تھی۔ ہر صفحے پر شیکسپئر کے متعلقات کے عکس تھے، پاؤں میں معروف ڈراموں کے فقرے لکھے تھے ۔ نیٹ کے خرخشے سے بہت پہلے میں نے ہنلے سٹریٹ کی سیر اسی دستکی سے کی تھی۔

نثر کے شیکسپیئر ڈکنز کے بارے میں مشہور ہے کہ اپنی کتابوں کے مصوروں کو پہلے خلاصہ بتاتا تھا ، پھر کہانی لکھتا تھا۔ ان کا ذاتی مصور فز دن رات کسالے کھینچتا تھا۔ موقلم ہاتھ میں لیے بیٹھا ہے۔ ادھر ڈکنز کو تصویریں آسانی سے پسند نہیں آتی تھیں۔ ناول کے چھپنے میں کھنڈت پڑ رہی ہے ، تصویر نہیں جم رہی۔ رنگ نہیں بیٹھ رہا۔ اللہ اللہ۔

بائبل کے مصور نسخوں کی تعداد کا تو پوچھنا ہی کیا۔ خود میرے گھر میں بچوں کے واسطے دو مصور ایڈیشن ہیں۔ رنگوں کا استعمال ایسا کہ ہر پیغمبر کا واقعہ و علاقہ دل پر نقش ہوا جاتا ہے۔ سب سے مقبول مثال "بائبل آف دی پوپرز” (غریبوں کی بائبل) میں دیکھی جا سکتی ہے، جو بڑی حد تک قرون وسطیٰ کے ناولوں جیسی ہے۔

جین آسٹن کے تصویری ایڈیشنوں کی تفصیل پڑھنی ہو تو شاہد حمید کا مضمون دیکھ لو۔اس کے پھیلاؤ کے واسطے باقاعدہ اصطلاح ہے : آسٹن انڈسٹری۔ اور تو اور جی سی یونیورسٹی لاہور کے کتاب خانے میں مسز ڈاولازوے اور موبی ڈک کے ایسے تصویری نسخے ہیں کہ آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں۔ ورجینیا وولف کو پڑھنا کیسا دشوار ہے ! سوچیے مصور نے کیسے آسمان پر تھگلیاں لگائی ہوں گی۔

یولیسس ہم تو نہ پڑھ پائے ، لیکن آئر لینڈ کی حکومتی ویب سائٹ پر ایک ایک سطر کے ساتھ مصوری کا لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔
ڈبلن کی گلیاں گھومیے، مرقعے دیکھیے اور خوش ہوتے جائیں
غرض ایک اقلیم ہے جس کی وسعت معلوم!

اردو میں مصور کتب کی روایت کم سہی لیکن ایسی شاذ بھی نہیں۔ تیس چالیس سال پہلے تک داستانوں کے مصور ایڈیشن بہت عام تھے۔ ایک صدی پیچھے جائیے تو نول کشور کے مطبعوں میں کاتب اور مصور شاعروں کی بڑی مانگ تھی۔ ان میں سے کئی نول کشور کے اشاعتی ادارے سے باقاعدہ منسلک تھے۔ مثلاً اسیر لکھنوی اور امیر اللہ تسلیم لکھنوی۔
داستان امیر حمزہ ، طلسم ہو شربا ، قصہ چہار درویش ، قصہ حاتم طائی کے مصور ایڈیشن آج بھی نظر سے گزرتے ہیں۔ اگرچہ ان نسخوں کو بڑے ہی ہلکے پھلکے انداز کے تصویری نسخے کہا جا سکتا ہے۔ میرے ایک دوست کے گھر میں بہار دانش کی نثری داستان کا ایسا تصویری نسخہ ہے کہ گردن زدنی ہے۔ مجید امجد کی نظم یاد آتی ہے :
فرنگی جریدوں کے اوراق رنگین

بیسویں صدی کے نصف میں جب سائینسی کتابوں کے اردو تراجم ہوئے تو مصور کتابوں کا ایک انبار سامنے آیا۔ ایک زمانے میں مجھے اردو کی سائینسی کتب جمع کا شوق ہوا تھا۔ میرے ذاتی ذخیرے میں اردو اکیڈمی سندھ کی کئی مصور سائنسی کتب موجود ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک چھوٹی سی کتاب میرے انٹر کے طالب علموں میں بہت مقبول رہی، تلاش کے سفر۔ اس میں دنیا کے مہم جوؤں کے اسفار اور تصاویر تھیں۔ اسی طرح اٹھارویں اور انیسویں صدی کے جہاز رانوں کا ایک دیدہ زیب مصور اردو نسخہ میرے مطالعے میں رہا۔
جی سی کالج کے ہر دل عزیز پرنسپل ڈاکٹر محمد نذیر کے کئی عمدہ مصور سائینسی تراجم بھی میری نظر سے گزرے ہیں۔شیخ غلام اینڈ سنز نے جہازی سائز کا ترجمہ چھاپا تھا : حیوانی زندگی کا ماضی و حال۔ اس ترجمے میں ڈاکٹر نذیر مرحوم کی دماغ سوزی نظر آتی ہے۔

اسی اور نوے کی دہائی میں روسی ناولوں کے جو تراجم دارالاشاعت ماسکو نے چھاپے تھے، ان میں تصویروں کا قابل ذکر ذخیرہ موجود ہے۔ پشکن، گوگول ، چیخوف ، ٹالسٹائی ، دوستوفسکی اور گورکی کے مصور تراجم بڑے مقبول رہے۔ یہ پرانے ایڈیشن آج بھی مہنگے داموں بکتے ہیں۔
تین سال ( چیخوف) کا جو ترجمہ ظ انصاری نے کیا ہے، اس کے ٹائٹل پر بنی ادھ کھلی چھتری کا کیا کہنا۔تین رنگوں کی یہ چھتری پورے ناول کے موضوع کو محیط ہے۔ جرم و سزا کے روسی ایڈیشن میں رسکولنیکوف کے خواب کی گھوڑی اور اس کی موت کو لرزہ انگیز طور پر عکس بند کیا گیا ہے۔ روسی تراجم میں ان مصوروں کے نام بھی درج ہوتے تھے۔

ابن انشا کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے سکیچز خود بناتے تھے۔ لیکن سفر ناموں کے یہ سکیچز بڑے ڈھیلے ڈھالے اور ” لوکپریا” ہیں۔ ابن انشاء نے ایڈگر ایلن پو کی کہانیوں کا چار کتابوں کی سیریز میں ترجمہ کیا تھا۔ ان تراجم میں بھی ان کے ہاتھ کے سکیچ موجود ہیں۔

نیر مسعود نے اپنے ایک خط میں تصویری کتب سے گہری دل چسپی کا اظہار کیا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ ان کا مصوری سے عملی شغف تھا۔ کم لوگ جانتے ہیں ، انھوں نے اپنے کئی دوستوں کی کتابوں کے سرورق بھی تیار کیے تھے (مثلاً منیر نیازی ، انیس اشفاق)۔ شمس الرحمن فاروقی مرحوم کے گھر میں ان کے ہاتھ کی کئی اردو فارسی وصلیاں موجود ہیں۔ خود فاروقی صاحب کی شادی کا کارڈ بھی انھی کے ہاتھ کا شاہکار تھا۔کافکا کے افسانوں کا جو اردو ترجمہ ہندوستان سے چھپا، اس میں بڑے قرینے سے کافکا کی تصویریں موجود ہیں۔ قلم و موقلم سے ان کی رغبت ایسی تھی کہ وفات کے بعد ان کی الماری سے سیکڑوں طرح کے قلم اور پنسلوں کا ذخیرہ نکلا یعنی :

بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا

مجھ سے ایک گفت گو میں مظہر محمود شیرانی مرحوم نے اردو تصویری لغت کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ان کے پاس ضروری مواد بھی تھا۔ لیکن مصور ندارد :

خوب رو اب نہیں ہیں گندم گوں
میر ہندوستاں میں کال پڑا

برا ہو افسانہ طرازی کا ، کہانی کیسی طولانی ہو گئی۔ ذکر تھا شوکت تھانوی کی ” قاعدہ بے قاعدہ” کا. قصہ مختصر جو کتاب مجھے ملی ہے اس پر سن درج نہیں ہے۔ پاکستانی ایڈیشن ہے۔ ادارہ فروغ اردو لاہور نے چھاپا ہے۔ سائز بالشت بھر ہو گا۔ اشاعت دوم ہے۔ شروع کے دو صفحے تعارف کے ہیں۔ جسے نقوش صاحب ( محمد طفیل ) نے لکھا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں ، اس قاعدے کے دو ادیب ( یاس یگانہ اور پطرس ) حال ہی میں فوت ہو گئے ہیں. اس کے معنی ہوئے : قاعدہ سن پچاس کے آس پاس چھپا ہو گا۔ شوکت تھانوی کا اپنا ابتدائیہ بھی ہے۔ سات آٹھ صفحوں میں خوب فلسفہ بگھارا ہے۔ افسوس کی بات ہے مصور کا ذکر نہیں۔ یہ خاکے کس موقلم کا شاہکار ہیں ، فرشتوں کے سوا کوئی جانتا۔ خیر کتاب اس قابل ہے کہ پڑھی جائے ،خاکے اس لائق کہ آنکھوں سے لگائے جائیں۔

کچھ خاکوں کے اقتباس دیکھ لیجیے۔ تصویروں کے عکس بھی دیے دیتا ہوں۔

پطرس
بچو! آج کل پطرس لیک سکسس میں رہتے ہیں۔ جہاں اقوام متحدہ نے کشمیر کا اچار ڈالا ہے۔ اقوام متحدہ کے اس مذاق کو سمجھنے کے لیے پاکستان کا سب سے بڑا مزاح نگار وہاں بھیجا گیا ہے۔ اور جو کچھ خدا دکھا رہا ہے دیکھ رہا ہے۔ تم ان باتوں میں نہ پڑو، صرف یاد رکھو : پ پطرس

میرا جی
بچو! یہ ثنا اللہ بن کر پیدا ہوئے اور میرا جی بن کر مرے. اب ان کو مرنے کے بعد زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے. جب یہ زندہ تھے تو ان کے دوست ان کے مرنے کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ اس لیے کہ ہمارے دیس میں کوئی شخص بغیر مرے قابل قدر نہیں ہو سکتا۔ آج کل یوم میرا جی منایا جاتا ہے ۔جب میرا جی ایک خیراتی ہسپتال میں مر رہے تھے اس وقت ان کے حلق میں پانی ٹپکانے والا کوئی موجود نہ تھا۔

جوش
بچو! ملیح آباد کا یہ پٹھان شاعر خدا سے بھی اکڑتا ہے۔ اس لیے اب قضا و قدر نے احتیاط شروع کر دی ہے کہ اگر کسی کو پٹھان بنا دیا ہے تو اسے شاعر نہ بنایا جائے۔

زیڈ اے بخاری
بچو! تم ان کو مشاعرے میں دیکھو تو صرف انہی کا شعر تم کو یاد رہ جائے۔ ریڈیو پر ان کا پارٹ سنو تو اسی کی نقل کرو۔ ان کے لطیفے سنو تو ان کو اپنا بہترین دوست بنانے کی تمنا کرو۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بخاری بنتے بہت ہیں۔ مگر بن وہی سکتا ہے جس کو بگڑنا نہ آتا ہو۔ جو کچھ نہیں بن سکتے وہ یہی کہتے ہیں کہ بخاری بنتے ہیں۔ یہ بات تم نہ کہنا اس لیے کہ تم اچھے بچے ہو۔
بچو!تم بخاری بننے کی کوشش کرو اور یاد رکھو : ذ ذوالفقار علی بخاری۔

رشید احمد صدیقی
درد کی ٹیس پر مسکرا کر دوسروں کو ہنسانے والا کس دل گردے کا انسان ہو سکتا ہے اس کا اندازہ کرنا ہو تو رشید احمد صدیقی کا ادب خواہ نہ پڑھو خود رشید صدیقی کو ضرور پڑھ لو اور ان کی صحت کے لیے دعا کرو۔ بچو! ہم کو ہنسانے والے خدا کی رحمت ہیں لہذا خدا سے کہو ان پر بھی رحمت نازل کرے۔

منٹو:
بچو! ان کو دیکھو یہ منٹو ہیں۔ منٹو پارک والے منٹو نہیں۔ سعادت حسن منٹو .افسانہ نگار منٹو. وہ منٹو جو مقدمہ چلوانے کے لیے افسانہ لکھتے ہیں. افسانہ رسالے میں جاتا ہے. اور یہ خود عدالت میں.
بچو! یہ بہت اچھے آدمی تھے اور اب بھی بہت اچھے ہیں مگر ایک دن ایک بوتل سے انڈیل کر ناجانے کیا پی گئے کہ پھر نہ سنبھلے۔ سنا ہے کہ آج کل وہی بوتل خود ان کو پی رہی ہے۔ خدا رحم کرے۔

غلام عباس
بچو! تم غلام عباس سے ملنے کی کبھی کوشش نہ کرنا. ورنہ حلف اٹھا کر تم کو یقین دلائیں گے کہ میں غلام عباس ہوں اور تم کو عبرت ہوگی کہ ذرا سی بات کے لیے یہ شخص جھوٹا حلف اٹھا رہا ہے۔

ن م راشد
بچو! تم اگر کہیں آزاد نظم دیکھنا تو پڑھنا نہیں ورنہ ہنسی آ جائے گی۔ خیر ہنسنا بری بات نہیں مگر اس نظم کو یاد کرنے کی صرف اس وقت کوشش کرنا جب پہاڑے یاد کرنے کو جی چاہے۔ اور ایک بات گرہ میں باندھ لو اس نظم کو گانے کی کبھی کوشش نہ کرنا اس لیے کہ علم موسیقی میں اب تک کوئی ایسا راگ نہیں جس میں آزاد نظم گائی جا سکے۔ یہ نظم کسی ایسے ستار پر بجائی بھی نہیں جا سکتی جس کے تمام تار صحیح و سالم ہوں۔

ہاجرہ مسرور
بچو یہ ہاجرہ مسرور ہیں۔جن کی وجہ سے بہت سے غور و فکر کے مریض مرد ہر کام چھوڑ کر اس بات پر غور کرتے ہیں کہ اگر حجاب امتیاز علی، عصمت چغتائی، ہاجرہ مسرور ، قرۃ العین اور خدیجہ مستور قسم کی عورتیں برابر پیدا ہوتی رہیں تو ہم ناقص العقل کس کو کہا کریں گے۔ بچو ان مفکرین کو اندیشہ یہی ہے کہ کہیں یہ خود ناقص العقل بن کر نہ رہ جائیں۔

یگانہ
چھوٹی ی سے نہیں بلکہ بڑی ے سے یاس۔ چھوٹی ی یاس کے متعلق کہتی ہے: چھوٹا منہ بڑی بات. یہ غالب کو چچا بنا کر چھوڑنے والے یاس عظیم آبادی ہیں۔ بچوں یہی وہ مرزا یاس یگانہ ہیں جو اپنے کو مرزا یگانہ چنگیزی علیہ السلام لکھتے ہیں۔ خیریت گزری کہ شاعر تھے۔ صرف غالب اور عزیز سے انکار کیا ہے اور اپنے کو علیہ السلام کہا ہے۔ شاعر نہ ہوتے تو خدا سے انکار کرتے اور خدائی کا دعوی کرتے۔

ڈاکٹر ارسلان راٹھور

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button