ادب

اردو غزل میں امرد پرستی کی روایت

مؤرخین نے وسطی ایشیا کو ہندوستان کا دروازہ کہا ہے اور اسی دروازے ہی سے آریہ، تاتار، مغل، ترک اور پٹھان ہندوستان میں داخل ہوئے اور حملے کرتے ہوئے پایہ تخت میں داخل ہو کر تخت نشین ہوئے۔ یہ لوگ جو رسم و رواج اور روایات اپنے ساتھ لائے تھے، وہی روایات اور رسم و …

مؤرخین نے وسطی ایشیا کو ہندوستان کا دروازہ کہا ہے اور اسی دروازے ہی سے آریہ، تاتار، مغل، ترک اور پٹھان ہندوستان میں داخل ہوئے اور حملے کرتے ہوئے پایہ تخت میں داخل ہو کر تخت نشین ہوئے۔ یہ لوگ جو رسم و رواج اور روایات اپنے ساتھ لائے تھے، وہی روایات اور رسم و رواج آج ہمارا سرمایہ فخر ہیں۔ غزل نے عرب میں جنم لیا اور فارس میں پلی بڑھی۔ فارسی میں غزل کی جو اقدار پروان چڑھ چکی تھیں، ایرانی حملہ آور انہیں اپنے ساتھ ہندوستان لائے۔
انہیں اقتدار میں ایک قدر ”امرد پرستی“ بھی تھی۔ اردو غزل فارسی سے مستعار شدہ ہے۔ اور ہندوستان میں اسے پروان چڑھانے میں ان لوگوں ہی کا عمل دخل ہے، جو فارسی کے بڑے اساتذہ اور مرد میدان تھے۔ اس وجہ سے فارسی شاعری کی قدر ”شاہد بازی“ کو اردو غزل میں بار پانے میں دشواری پیش نہ آئی اور ہندوستانی امراء کے ہاں معاشرتی حیثیت سے پروان چڑھتی گی۔ ”1151 ہ ( 1729 ء ) میں دہلی کے امراء اور رؤسا میں شاہد بازی کا کیا عالم تھا اس کی تفصیل نواب ذوالقدر درگاہ قلی خان کی مشہور تصنیف“ مرقع دہلی ”میں واضح طور پر ملتی ہے۔ “
اٹھارویں صدی کے ابتدا میں دہلی میں شاہد بازی شعراء کے کلام میں اس قدر داخل ہو چکی تھی کہ اس وقت کے ہر تذکرہ نگار نے شعراء کے متعلق لکھتے وقت اس عنصر کا ذکر ضرور کیا۔ عبدالغفور نساخ اپنے تذکرہ ”سخن شعرا“ میں داغ دہلوی کے متعلق یوں لکھتے ہیں
”داغ تخلص، میر مہدی دہلوی مقیم لکھنؤ، فرزند شاگرد میر سوز بتیس برس کی عمر میں ایک نونہال گلشن خوبی پر شیدا ہو کر کچھ دنوں اس کے باغ وصال سے زندگی کا مزا چکھا اور گل مراد سے اپنا دامان تمنا بھر لیا۔“
میر تقی میر اپنے تذکرہ ”نکات الشعراء“ میں رسواء کے متعلق یوں لکھتے ہیں
”رسوا تخلص کا ایک ہندو شخص تھا۔ فی الحال مذہب کی قید سے آزاد ہے۔ ایک ہندو لڑکے پر عاشق تھا۔ حکم خدا سے وہ لڑکا انتقال کر گیا اور اس کا عشق ہوس میں بدل گیا۔“
میر تقی میر عاجز کے متعلق یوں لکھتے ہیں
”عاجز تخلص، یہ شخص لوطی ہے۔“
میر تقی میر دیوان ششم میں اپنے متعلق شعر موزوں کرتے ہیں کہ
بے عشق خوب رویاں اپنی نہیں گزرتی
اے وائے کس بلا میں ہم مبتلا ہوئے ہیں۔ (میر)
میر تقی میر کے ہم عصر شاعر خواجہ میر درد جنہیں صوفی شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کے ہاں بھی امرد پرستی پر مبنی کئی درجن اشعار موجود ہیں۔
اے درد ہم سے یار ہے اب تو سلوک میں
خط زخم دل کو مرہم زنگار ہو گیا (درد)
ان بیانات اور اشعار سے صاف ظاہر ہے کہ اٹھارہویں صدی عیسوی میں ہندوستان اور خصوصاً دہلی میں امرد پرستی کا کس قدر چرچا تھا اور اڑتے چڑے پھانسنے کا کس قدر شوق۔ وہ شعراء جن کی سماجی حیثیت مسلم تھی، کھلے بندوں امرد پرستی کیا کرتے تھے اور ہر گلی محلے، شادی بیاہ اور دیگر محفلوں میں امرد پرستی پر مبنی غزلیں گائی جاتی تھیں۔ اردو غزل میں سبزہ خط، شوخ، گل بدن، سادہ رو، صنم، خوبرو، ستم گر، خوباں، یار، پیارے، لڑکا، چنچل صنم، ستم پیشہ اور قاتل جیسی اصطلاحیں شاہد بازی ہی کی مرہون منت ہیں۔ اردو غزل میں شاہد بازی کے عنصر کو ظہور شہزاد اظہر ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
”ابتداء میں غزل سادہ رو اور شوخ لڑکوں کے ساتھ منسلک رہی ہے۔ اور جو لوگ یہ کہتے ہیں غزل کے لغوی معنی ہیں ’عورت کے ساتھ بات کرنا‘ وہ اپنی جہالت کے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ عورت کہاں ہے؟“
چند اور شعرا کا کلام بطور نمونہ درج کیے دیتا ہوں۔ تاکہ اردو غزل کی ابتداء میں امرد پرستی کا مقام واضح ہو جائے۔
خط آ گیا ہے اس کے، مری ہے سفید ریش
کرتا ہے اب تلک بھی وہ ملنے میں صبح شام۔ (مضمون)
شاید کہ ہوا ہے خط نمودار
نامہ کا میرے جواب آیا (فغان)
یہی مضمون خط ہے احسن اللہ
کہ حسن خوبرویاں عارضی ہے۔ (احسن)
دل مومن آتش کدہ بنے کیوں
لگاوٹ یہ طفل برہمن سے ہے۔ (مومن)
خوب رو ہی فقط نہیں وہ شوخ
حسن کیا کیا ادائیں کیا کیا ہیں (میر)
اے آنسوو نہ آوے کچھ دل کی بات منہ پر
لڑکے ہو تم کہیں مت افشائے راز کرنا۔ (درد)
سبزہ خط سے تیرا کاکل سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریف دم افعی نہ ہوا (غالب)
ان امثال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب ہندوستان میں اردو غزل پروان چڑھی تو امرد پرستی اس کا مرکزی موضوع تھا۔ تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غزل کے معنی ”عورت کے ساتھ باتیں کرنا“ کی بجائے، ”لونڈوں سے باتیں کرنا“ حقیقت کے قریب معلوم ہوتا ہے۔

علی حسن اویس

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button