الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
تاریخ کا ماضی اور حال سے بڑا گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ ہر گزرا ہوا پل یا لمحہ ہماری تاریخ بن جاتا ہے، تاریخ شہد جیسی میٹھی ہو یا زہر جیسی کڑوی، اس کو قبول کرنا ہماری مجبوری بن جاتی ہے گویا گزشتہ سے پیوستہ ہونا ایک ضروری امر ہے۔ تاریخ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے ماضی کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ تاریخ کو بادشاہ، حکمران یا ریاست کا سربراہ جب چاہے جس طرح چاہے بدل سکتا ہے۔زیادہ دور نہ بھی جائیں تو برصغیر میں مغلیہ دور حکومت میں ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں جو روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ایسے واقعات جن پر درباری مؤرخوں نے بڑے سلیقے سے پردے ڈالے مگر گزرتے وقت نے ان پردوں پر ایسی چھاپ چھوڑی کہ ان میں پوشیدہ سارے کے سارے چھید نمایاں کر ڈالے۔ اگر شعور کی آنکھ کھلی ہو تو کچھ ایسی ہی چھاپ ہمیں اپنے ملک پاکستان کی تاریخ پر بھی نظر آتی ہے۔ بے شمار ایسے واقعات ہیں جن کو عام عوام سے دور کر کے تاریک گڑھوں میں دھکیلنے کی حتی المقدور سعی کی گئی۔
ایسے ہی ایک واقعے کی جھلک ہمارے قومی ترانے میں ملتی ہے، ملک کے جھنڈے کی طرح قومی ترانہ بھی کسی ملک کی شناخت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاید اسی لئے قائد اعظم نے ملک کے قیام سے قبل قومی ترانہ تخلیق کرایا جس کے خالق جگن ناتھ آزاد تھے( اگرچہ اس بات کے بھی بہت واضح ثبوت ہم تک نہیں پہنچے) جگن ناتھ آزاد تلوک چند مرحوم کے فرزند تھےاور پنجاب کے ضلع میانوالی کے ایک چھوٹے سے قصبے عیسی خیل میں پیدا ہوئے۔ جگن ناتھ آزاد اردو کے معروف شاعر ہیں جو اقبال کی زندگی،شاعری اور فکر کی شرح کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں ۔ جب پاکستان کا قیام قریب ہی تھا تو ملک کا کوئی قومی ترانہ نہ تھا اس مسئلے کے پیش نظر قائد اعظم نے یہ فریضہ اپنے ایک دوست کی وساطت سے جگن ناتھ آزاد کو سونپا، دو یا تین دن کے دئے گئے وقت میں انھوں نے پاکستان کا پہلا قومی ترانہ لکھا جو کمپوزنگ کے بعد باقاعدہ طور پر 14 اگست 1947 کو ( بقول جگن ناتھ آزاد) لاہور ریڈیو سے نشر ہوا ۔ قیام پاکستان کے وقت بہت سے نامور ادیب اور شعراء موجود تھے۔ لیکن دماغ کے تاریک خانوں میں یہ سوال تاروں کی طرح ٹمٹماتا ہے کہ آخر قومی ترانے کا فریضہ قائد نے جگن ناتھ آزاد ہی کو کیوں سونپا جو مسلمان نہیں بلکہ ایک ہندو شاعر تھے۔ جیسا کہ سب کے علم میں ہے کہ قائد ایک ایسی ریاست چاہتے تھے جہاں سب کو مناسب اور برابرحقوق ملیں،شاید یہ ہی وجہ تھی کہ انھوں نے ایک ہندو شاعر کو اس کام کے لئے مختص کیا تا کہ عالمی برادری میں ایک صلح کا پیغام جائے۔
ایک روایت کے مطابق جگن ناتھ آزاد کا لکھا ہوا قومی ترانہ اٹھارہ ماہ تک ریڈیو پاکستان سےنشر کیا جاتا رہا مگر قائد کی وفات کے بعد یہ ترانہ، سوچ اور فکر بھی پس پشت ڈال دی گئی۔ نیا قومی ترانہ لکھنے کے لئے تگ و دو کی گئی اور نہایت تگ و دو کے بعد حفیظ جالندھری کا لکھاترانہ چنا گیا، اس نئے قومی ترانے کی خوش بیانی، الفاظ کا چناؤ، خوبصورت اوردلکش کمپوزنگ اپنی مثال آپ ہے لیکن باوجود ان سب باتوں کے کچھ پہلوؤں کی وضاحت ضروری ہے۔
جگن ناتھ آزاد کی کتاب ” حیات محروم ” سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو
” رات کو جب قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو ریڈیو پاکستان سے میرا قومی ترانہ ( اے سر زمین پاک) نشر ہوا” اور ایک روایت کے مطابق یہ بھی ہے کہ دوسرے دن 15 اگست کو جب بھارت کا جشن آزادی منایا جا رہا تھا تو آل انڈیا ریڈیو سے حفیظ جالندھری کا ترانہ ( اے وطن، اے بھارت) نشر ہوا۔
پاکستان کے ایک تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی کتاب تاریخ فہمی میں حفیظ جالندھری کا تذکرہ کچھ ان الفاظ میں کیا ہے
” حفیظ جالندھری نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ضیاء الحق کے دور میں پاکستانی ادیبوں نے قصر صدارت کو دیکھ لیا,ان کی نظر میں شاید یہ ذندگی کی معراج تھی، یہ ہی وہ شاعر تھے کہ برطانوی دور میں لوگوں کو زبردستی فوجی بھرتی کرانے میں حصہ لے رہے تھے اور یہ نظم کہہ رہے تھے کہ میں تو چھورے کو بھرتی کرا آئی رے، بعد میں یہ قومی ترانے کے خالق بن کر معاشرے میں قابل احترام ہو گئے”
بہر حال ڈاکٹر مبارک علی کی بات سے مکمل اتفاق بھی نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ان سب باتوں سے قطع نظر حفیظ جالندھری کی اپنی بھی کوئی پہچان اور وقعت ہے جس سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔ ہاں کچھ پہلوؤں سے اختلاف ضرور کیا جا سکتا ہے۔
دل کے پھپھولے اس وقت سینے کے داغ سے جل اٹھتے ہیں جب تاریخ کی ستم ظریفی ہمارے سامنے ایسے بھنبھناتی ہے جیسے شہد کی مکھی اپنے چھتے کے گرد۔ جگن ناتھ آزاد پر امن اور نرم طبیعت کے مالک تھے اور پاکستان ہی میں رہنا چاہتے تھےلیکن جب مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے بے دریغ قتل کی وجہ سے مغربی پنجاب میں ہندوؤں کے لئے گھیراتنگ ہوا تو آزاد بھی راولپنڈی کو روانہ ہوئے اور جب دیکھا کہ ساحر لدھیانوی جیسا با اثر شخص بھارت جا رہا ہے تو اپنے ارمانوں کے آنسو دل میں لئے وہ بھی بھارت چلے گئے۔
جگن ناتھ آزاد کے تحریر کردہ قومی ترانے کا تبدیل ہونا کوئی بڑی بات یا کم ازکم حیرانی کی بات نہیں۔ وقت ایک بہتی گنگا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ چلنا ہماری مجبوری لیکن یہ بات دل کو چھلنی کر دینے کے لئے کافی ہے کہ وہ قومی ترانہ جسے اس ملک کے لئے چنا گیا تھا اس ترانے کو اس ارض پاک کے وفا داروں نے ملی نغموں اور گیتوں میں بھی شامل کرنا گوارا نہ سمجھا ، آج کوئی اس ترانے سے واقف نہیں۔
جگن ناتھ آزادکا لکھا گیا یہ ترانہ یو ٹیوب پر موجود ہے ۔چند الفاظ ملاحظہ ہوں:
اے سر زمین پاک ، اے سر زمین پاک
اے سر زمین پاک، اے سر زمین پاک
ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک
روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک