کتابوں پر تبصرہ

تئیس سال – تجزیہ

حوادثِ زمانہ کی ہاؤ ہو میں نتیجہ متعین کر کے مقدمہ بازی کرنے کی روش مغربی اکاڈیمیہ سے لے کر اسلامی مدارس اور منبروں تک بر سرِ عروج ہے۔ یار لوگ بات کرنے سے پہلے ہی اپنی فکر کو کائناتی حقیقت مان چکے ہوتے ہیں سو گر بحث کی بھی جاوے تو کیونکر۔ ایسے میں …

حوادثِ زمانہ کی ہاؤ ہو میں نتیجہ متعین کر کے مقدمہ بازی کرنے کی روش مغربی اکاڈیمیہ سے لے کر اسلامی مدارس اور منبروں تک بر سرِ عروج ہے۔ یار لوگ بات کرنے سے پہلے ہی اپنی فکر کو کائناتی حقیقت مان چکے ہوتے ہیں سو گر بحث کی بھی جاوے تو کیونکر۔ ایسے میں اک ایسی کتاب کا ہاتھ لگ جانا جو فیصلہ اور نتیجہ اخذ کرنے کے بجائے قضیے اور مقدمے کو کھول کر قاری کے سامنے رکھ دے، بنی اسرائیل پے اترے من و سلویٰ سے کم تو نہیں۔۔۔

یہ کتاب پیغمبرِ اسلام ﷺ کی تئیس سالہ نبوت کی زندگی کو ایسے معروضی انداز میں بیان کرتی ہے کہ کہیں رائی برابر بھی اندھے اعتقاد اور مبالغہ کی بھنک نہیں پڑتی۔ اسے جنابِ پیغمبر پر بے جا اعتراضات اور مذہبی عقائد کے اختلاف پر بے بات نقد کرنے والے ادیبوں کے مابین توازن کا ایسا معیار سمجھا جاسکتا ہے جہاں عرب کی سیاسی، سماجی اور جغرافیائی حقیقتوں کے پیشِ نظر آنحضرت کی زندگی، فکر، اور زمینی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے نبوت کے تئیس سال میں پیش آئے معاملات و واقعات کو ترتیب دیا گیا ہے۔

اس کتاب کے مصنف علی دشتی نے مذہبی گھرانے میں آنکھ کھول کر قرآن، تفسیر، فقہ، حدیث، منطق، اسلامی تاریخ اور حکمت کے تمام باب پڑھے مگر اجداد کی روایتِ ایمانی میں بھسم ہونے کے بجائے ان تاریخی دریچوں تک پہنچنا چاہا جن کی پاداش میں انہیں کئی بار جیلوں کی نذر ہونا پڑا اور حتی کہ تین کتب میں سچ کا تناسب اس قدر بڑھ گیا کہ لکھنے والا اپنا نام تک استعمال نہیں کرسکا۔ انہی میں سے ایک کتاب یہ ”بیست و سہ سال“ ہے جسے چھپوانے علی دشتی کو لبنان جانا پڑا اور وہاں سے بھی پابندی کے بعد غیر قانونی اور خفیہ طور پر علمی خواص تک یہ کتاب پہنچائی گئی۔ جوں جوں لوگ پڑھتے گئے اس نامعلوم مصنف کے سچ کو ایسی پذیرائی ملتی چلی گئی کہ لاکھوں کاپیاں ہاتھوں ہاتھ چھپنے اور فروخت ہونے لگیں۔ حکومتِ ایران اور ماتحت ایجینسیاں آخر خاموش سچائی اٌگلتی اِس کتاب کی سیاہی میں علی دشتی کی شناخت تک پہنچ گئیں اور پھر انہیں اسی اذیت کے دوراہے سے گزارا گیا جو بے نیاز زمانے کا دستور ہے۔۔

ایک ایسی کتاب جسے کئی ممالک میں سرکاری پابندی کا سامنا ہے اور جس گھر میں مل جائے وہاں رہنے والوں کی اگلی صبح پسِ زندان مقرر ہو اسے ترجمہ کرنا کوئی کارِ آسان تو نہیں۔ خالد تھتھال نے نہ صرف اس تند صرصر کا انتخاب کیا بلکہ اسے جمالیات اور لسانیات کے کسی پہلو سے محروم نہ رہنے دیا۔ یوں ترجمہ پڑھ کر بھی محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہی اصلی متن ہے۔ حاشیوں میں تحقیقی گوشوارے لکھ کر خالد تھتھال نے غیر ایرانی قارئین کی کئی مزید مشکلیں آسان کردیں۔ بلاشبہ اس کتاب کو ان چند کتب میں شمار کیا جانا چاہیے جنہیں زندگی بھر میں ایک بار لازمی پڑھا جانا چاہیے.

احتشام الحق باغی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button