ایک پرانی شام کا قصہ ہے، موسم جاڑے کا تھا، ہوائیں سرد تھیں، معلوم پڑا کہ بھارت سے بابائے سیرت یٰسین مظہر صاحب کی آمد ہے، قبلہ سجاد الٰہی کے گھر مقیم ہیں، ان دنوں اپنے ذاتی چینل کا جنون سوار تھا، اباجی کی ملاقات طے تھی، سو ہم نے مائیک و کیمرہ تھاما اور حاضرِ خدمت ہوئے، گارڈن ٹاؤن بہت وسیع اور کھلا مکان تھا، وہاں پہنچے تو سیرت نویسی پر ایک طویل انٹرویو ریکارڈ کیا، تب یٰسین صاحب کی آواز کپکپاتی تھی، بار بار بولنے سے کتراتے، مگر ان کے ماتھے پر زرا بھی شکن نہ آئی، تسلی سے سنا اور سکون سے جواب دیا۔
وقفہ لیا تو ڈاکٹر عاکف سعید صاحب، ریلوے روڈ کالج والے، تشریف لائے، گفتگو جاری رہی، سیرت نگاری، پرداخت و ساخت اور تاریخ پر باتیں ہوتی رہیں، اسی اثناء میں ایک صاحب صاحب کمرے میں داخل ہوئے ” جی معذرت! میں کچھ کام سے گیا تھا، ابھی فارغ ہوا ہوں”
اباجی نے تعارف کرایا کہ محترم سجاد الٰہی صاحب ہیں، قد دراز، پیشانی خندہ، ہونٹ متبسم، کندھوں پر پسینہ نمایاں، عمر کی رسیدگی سے ماتھے کے کچھ بال ندارد، دیس بھیس سے ایک روایتی کاروباری آدمی معلوم ہوتے تھے، لاہور کے معروف بازار میں لوہے کے تاجر تھے، کسی زمانے میں اکنامکس پڑھی اور کاروبار سنبھالا، خدا نے برکت دی اور خوب دی، مگر شوق علمی و کتابی، آج کے زمانے کے سوشل میڈیائی اسکالرز کی طرح عامی نہیں، علمیت پر بہت دقیق اور گہری نظر تھی، اپنے شوق سے ایسا مقام پایا کہ بڑے بڑے علمی حلقوں میں ان کی شنید تھی، بھارت سے جو عالم آتا، انہی کا مہمان ہوتا، اپنے پاس بلاتے، ٹھہراتے، سیوا کرتے، خوب خدمتیں کرتے، علم سے محبت تھی اور علم والوں کے قدر دان تھے، پاک بھارت کے سیرت پڑھنے والوں کو جوڑ کے رکھے ہوئے تھے، وہاں سے کتابیں منگواتے، رسائل جمع کرتے، اپنی ذاتی لائبریری میں محفوظ کرتے۔
ابھی ہفتہ پہلے خبر ہوئی کہ پردہ فرما گئے، طبیعت تو ابتدا سے ہی ناساز رہتی تھی، مگر چست آدمی تھے، محنت کے عادی تھے، خدا ان کو رحمتوں سے نوازے، ان کی یاداشت میں اباجی نے شیخ زید اسلامک سینٹر کے سربراہ کی حیثیت سے تعزیتی ریفرنس منعقد کروایا، سیرت سے چاہنے والے، ان کے قدردان اور کئی فاضلین نے شرکت کی، تقریب کا مختصر احوال پیش کیے دیتے ہیں۔
تقریب کل تین بجے سہ پہر میں شروع ہوئی، ابتداء میں حافظ سجاد صاحب تشریف لائے، خاص اسلام آباد سے آئے تھے، یہ مرحوم کے ذاتی شناسا تھے، ایک معمولی چھوٹی گاڑی رکھی تھی، جب بھی گھومتے، پسینے میں بھر جاتے، مگر اپنی علمیت کو برقرار رکھا اور تھکن کو کبھی نہ حاوی ہونے دیا، یونیورسٹی کے طلبہ کی مالی معاونت کے لیے باقاعدگی سے معقول خرچہ بھجواتے تھے، ڈاکٹر سعد اللہ صاحب نے بڑی خوبصورت بات کہی، کہ مہنگائی کے دور میں انسانی توجہ وہاں ہی مرکوز ہوتی ہے جہاں سے روزگار وابستہ ہو، مگر خدا کا وہ فرشتہ اپنے مال و عیال کی فکر کے بنا ایسا شوق رکھتا تھا کہ بڑے علمی حلقوں میں گونج تھی، یہ صرف خداداد نعمت تھی، کتاب سرائے، اردو بازار والے،جناب جمال الدین افغانی اسٹیج پر تشریف لائے، بہت دبنگ اور کھلے انداز میں تقریر کی، کہنے لگے ہندوستانی اکابرین کا پاکستان میں ناشری و اشاعتی تعلق صرف سجاد الٰہی صاحب کا فیض تھا، انہی کا ذوق تھا کہ وہاں کے رسائل منگواتے، یہاں کے چھپواتے، قرب و جوار تک پہنچاتے، محفوظ رکھتے، زخیرہ کرتے اور اپنی لائیبریری قائم کر ڈالی، افغانی صاحب نے خاص زور دیا کہ کسی عالم کی لائبریری شہر والوں کا حق ہے، وہی وارث ہیں اور ادارے کو اسی بابت سنجیدہ انتظام کرنا چاہیے، ڈاکٹر سعید شیخ صاحب نے ہندو پاک کے جرائد و کتب کو علمی سوغات قرار دیا اور سجاد صاحب اس سوغات کے امیں بھی تھے اور محافظ بھی، وہ ایک مواصلاتی پل تھے جو سبھی کو جوڑے ہوئے تھے۔
ہندوستان سے بھی کئی افراد برقی طور پر شریک ہوئے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی والے ابو سفیان اصلاحی صاحب نے ویڈیو پیغام بھیجا، ارشاد کرتے ہیں کہ جب بھی پاکستان آنا ہوا تو سجاد صاحب نے تن من دھن سے قدردانی کی، پرآسائش گھرانہ دیتے، گاڑی سپرد کردیتے، ڈرائیور فراہم کرتے، وہ بھارتیوں کے یہاں خاص علمی معاون تھے، جو چل بسے، ادارہٴ تحقیق تصنیف، علی گڑھ سے وابستہ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے کہا موت برحق ہے، مگر بعض کی موت سے علم اٹھ جاتا ہے، البتہ وہ شیخ زید ادارے کے خاص مشکور ہوئے کہ اس پروگرام سے کچھ تشفی کا سامان فراہم کیا، پہلی ملاقات میں ہی ان کی گفتگو میں جابجا حوالوں سے ہی ان کے علمی کمال کا اندازہ ہوگیا، وہ خود ہی ایک ادارہ تھے، جو کتابوں اور شخصیات کا انسائیکلوپیڈیا تھا۔
پانچ بج چکے تھے، تقریب کا اختتام تھا، المورد کے ساجد حمید صاحب نے مائیک سنبھالا، درسِ قرآن دیتے ہیں، بڑے ہی نفیس آدمی ہیں، بتانے لگے کہ قریباً ستائیس سال پرانی رفاقت تھی، وہ باقاعدہ درس پر آیا کرتے، بہت گہرے اور تحقیقی سوال کرتے، ان میں خدا کا علم سیکھنے کی چمک تھی، چونکہ کاروباری تھی، تبھی سود و زکوٰۃ سے متعلق فقہ ازبر تھی، انتقال کی رات بھی چالیس منٹ کا ٹیلی فون ہوا، وہ قرآن کے سچے اور دل سے چاہنے والے تھے، اختتام پر ادارہٴ علومِ اسلامیہ کے سربراہ عاصم نعیم صاحب نے ادارے کا خاص شکریہ ادا کیا اور تحسین فراہم کی، بعد ازاں میزبان و منتظم ڈائیریکٹر نے تمام مہمانان اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا، دعا پر تکمیل ہوئی اور چائے پیش کی گئی۔
خدا علم والو پر مہربان ہو، آمین