فیض احمد فیض ایک عہد ساز شاعر
چمنستان دہر کے عجائبات پر اگر نظر دوڑائیں تو بو قلمونی کا تنوع انسان کو حیرت زدہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ کہنے کو تو گلستان کا ہر پھول بہار کا غماز ہوتا ہے لیکن نظر جس پر جا کر ٹھہر جائے حقیقت میں گلاب کہلانے کا مستحق ہوتا ہے۔آسمان کی جگمگ جگمگ کرتی چھاتی پر بے شمار ستاروں کا دل بیک وقت دھڑکتا ہے مگر بھٹکے ہوئے قافلوں کو منزل کا نشان دکھانے والا ایک قطبی تارا ہوتا ہے۔گردش لیل و نہار کی صراحی سے ہر شخص قطرہ قطرہ حیات کی کشیدگی کے بہاؤ کے ساتھ بہترین فن پارے کی نمود کا دعویٰ دار ہوتا ہے مگر آئین کہن پر اڑنے کی بجائے ساز نو ایجاد کر دکھانے والا ہی دراصل حقیقی فنکار کہلانے کے لائق ہوتا ہے۔
اسی طرح دنیائے ادب میں بے شمار نام آتے رہے اور اپنے فن کا لوہا منواتے رہے جو خون جگر سے اپنے فن پاروں کی سیرابی کرتے رہے، ساز فطرت کے نغمہ ازل کو سننے اور سنانے کی جستجو میں محو رہے تو کبھی عروس حقیقت کے حسن جہاں آراوجاں آفریں کی مچلتی آرزو کی کسک کو "آواز دوست” بناتے رہے اور کچھ الفاظ کو مفاہیم کے نئے پیرایوں سے سجاتے رہے اور بالآخر زمانے کے ریگزاروں پر اپنے ابدی نقش قدم ثبت کر گئے۔ انھی چند روشنی کے میناروں میں سے ایک فیض احمد فیض ہیں۔ یہ آفتاب تازہ 13 فروری 1911 کو سیالکوٹ کی سر زمین سے طلوع ہوا۔ یہ بات یاد رہے کہ فیض اس دور میں آئے جب شاعری روایت کی فضا میں آخری سانسیں لے رہی تھی اور محض گل و بلبل ، رخسار و لب، زلف و ابرو کے مضامین تک محدود ہوتی چلی جا رہی تھی۔ ایسے میں فیض کا دنیائے ادب میں الفاظ کو معنویت کے نئے سے نئے جامے پہنا کر پرورش لوح و قلم کرنا واقعی احسان ہے۔ ابتدائی عمر میں فیض نے اقبال کی طرح مدرسے سے مولوی میر ابراہیم سے بنیادی تعلیم حاصل کی جس سے ان کو کچھ نہ کچھ عربی اور فارسی سے شناسائی ہوئی اور زبان و بیان پر گرفت پیدا ہوئی۔ بعد ازاں مشن ہائی سکول ، مرے کالج سیالکوٹ اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے اور وہیں 1937 میں اورینٹل کالج اور امرتسر کالج میں بطور درس و تدریس بھی ذمہ داری سر انجام دیتے رہے۔ جہاں تک شاعری کے آغاز کا تعلق ہے تو اس کے متعلق نسخہ ہائے وفا میں ہی فیض کی خود نوشتہ حکایت بہ عنوان "عہد طفلی سے عنفوان شباب تک” میں لکھتے ہیں ” ہمارے گھر سے ملی ہوئی ایک حویلی میں مشاعرے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ ایک بزرگ منشی سراج الدین مرحوم صدارت کیا کرتے تھے۔ جب دسویں جماعت میں پہنچے تو ہم نے بھی تک بندی شروع کر دی مگر منشی سراج الدین نے کہا میاں! بہت ڈھونڈ کے شعر کہتے ہو لیکن شعر کہنے فی الوقت چھوڑ دو جبکہ دل و دماغ میں پختگی آ جائے تب کہنا”
اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ فیض کا اولین فنکارانہ تجربے کا آغاز عموما ہر شاعر کی طرح تک بندی سے ہوا۔ لیکن جلد ہی مرے کالج اور گورنمنٹ کالج کے اساتذہ نے منشی سراج الدین کے علی الرغم فیض میں ایک اچھے شاعر ہونے کی پیش گوئی کر دی اور انھیں شعر و ادب کی طرف راغب کیا
رفتہ رفتہ ایم اے تک پہنچتے پہنچتے وہ ایک مکمل شاعر بن گئے۔ فیض ذکر کرتے ہیں کہ وہ بچپن سے کتب کے مطالعے کا اشتیاق رکھتے تھے اس سلسلے میں انھوں نے کئی اردو کی لوک داستانیں چھان ڈالیں مگر جلد ہی ان کے والد بیرسٹر سلطان محمد خان نے ان کی طبیعت میں انگریزی ادب کا رجحان پیدا کیا جس سے فیض کی زندگی میں انگریزی ادب رچ بس گیاجس کی جھلک ان کے کلام میں بھی کافی حد تک نظر آتی ہے ۔ یہ واقعہ بھی مشہور ہے کہ گورنمنٹ کالج میں انگریزی کے امتحان میں فیض کو اضافی نمبر دئے گئے جس پر ایک طالب علم نے اعتراض اٹھایا تو پروفیسر نے کہا
Because I could not give him more
اس طرح ابتدائی عمر میں ہی فیض کیٹس، لارڈ بائرن اور ورڈز ورتھ جیسے شعراء کو پڑھ کر اپنی شعریت میں مغربی ادب کے اثر کو بدرجہ اتم قبول کر چکے تھے۔ بلکہ فیض کی بہت ساری نظموں میں ہمیں جان کیٹس کی رومانوی شاعری کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے جیسا کہ اگر کیٹس کی odes to melancholy اور فیض کی "تنہائی” کا مطالعہ کیا جائے تو ان دونوں میں بڑا گہرا اور معروضی تعلق معلوم ہوتا ہے۔ بہر حال فیض شروع سے ہی جمالیات اور رومانویت پر عمیق نظر رکھتے ہیں وہ عروس حسن آفریں اکثر خاموش خنک راتوں جو فیض کے شبستان تصور کو چراغاں کرتی اور شعری پیرایوں میں ڈھل کر کنارہ آفاق پر موجزن ہو جاتی ہے۔
نیم شب’ چاند خود فراموشی۔۔۔۔۔۔محفل ہست و بودویراں ہے
پیکر التجا ہے خاموشی۔۔۔…۔۔۔بزم انجم فسردہ ساماں ہے
آبشار سکوت جاری ہے۔۔۔۔۔چار سو بے خودی سی طاری ہے’ یہ بے خودی سی کیفیت شاعر کے ویراں خانہ تصور میں ‘چپکے سے بہار’ کے آنے کی ایسی موہوم کیفیت بن جاتی ہے جو محبوب کو کنایوں اور اشاروں میں رسیلے ہونٹ ، معصومانہ پیشانی اور دلفریب سرمئی آنکھیں کاسہ تخیل میں ڈالنے کا تقاضا کرتی ہے ۔ نقش فریادی کا بیشتر حصہ دراصل اسی طرح کے دلفریب نازک موضوعات کی حامل شاعری پر مشتمل ہے جو جذبات، داخلی کرب و اذیت کے احساسات اور گردش ایام کی سنگینی سے پگھلتے ہوئے حالات کی تھر تھراہٹیں سمیٹے ہوئے ہے۔ اس سے شاعر کا Aesthetic Aspectسامنے آتا ہےاور وہ ایک بہتر منظر نگار کے طور پر دکھائی دیتا ہے۔ ابھی فیض نے حالات کی سنگینی کو خاص محسوس نہ کیا تھا اور وہ فضا میں پر تولتے ہوئے پرندے کی مانند تھے جنھیں ابھی تک کوئی بھی پابند سلاسل کرنے والا نہیں تھا۔ گو فیض نے ایک پسماندہ مسلم گھرانے میں جنم لیا مگر یہ بات حیرت سے خالی نہیں کہ وہ ترقی پسند اور لبرل کیسے بنے؟ اس کا جواب فیض کے ہم عصروں ور خود فیض نے بھی اکثر مقامات پر دیا کہ ان نظریات پر بہت وسیع مطالے، تحقیق اور منطقی بنیادوں کے بعد پہنچے۔ ان کے نزدیک ادب اور کلچر کا تعلق سماجی حیثیت کی شکل میں ہونا چاہیے۔ جس ادب کی سماج میں ضرورت ہو وہی ادب کلچر کا حصہ بنا کرتا ہے ویسے بھی بیسویں صدی میں بالشویک ازم اور پھر چین کےانقلاب نے دنیائے معاشیات سمیت دنیائے ادب میں بھی ایک نئے ڈھنگ سے ڈاڈازم Dadaism کا رجحان پیدا کر دیا۔ اسی سے ترقی پسند تحریک کی بنیاد پڑی جس سے مجاز، جوش،ساحر سمیت فیض بھی منسلک رہے۔ وہ کمیونسٹ تھے اس لئے سجاد ظہیر سمیت پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی سے منسلک رہے اور بائیں بازو کی سیاست کی طرف ہی ان کا رجحان رہا۔ نواب زادہ لیاقت علی خان کے دور میں بھی وہ پاکستانی وفد میں شامل تھے اور روس کے دورے کے دوران بھی ان کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ حتی کہ روس نے انھیں لینن پرائز دے کر اپنا شاعر تسلیم کیا ہے۔ فیض کی نظموں کے تراجم بھی ہوئے۔
فیض کے ہاں اصل قیمت سرمائے سے بڑھ کر مزدور کسان اور محنت کش کے پسینے کی ہے۔ ان کا کلام ملاحظہ ہو
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
اطلس و ریشم و کمخواب میں بنوائے ہوئے
جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خوں میں نہلائے ہوئے
اسی طرح محض فریاد اور گریہ زاری سے کام نہیں چلاتے وہ اپنے عہد کے محنت کش کو رزم حق و باطل میں اترنے اور میدان عمل میں وارد ہونے کی بھی تلقین کرتے ہیں
ہم نے مانا جنگ کڑی ہے۔۔۔۔۔ سر پھوٹیں گے خون بہے گا
خون میں غم بھی بہہ جائیں گے۔۔۔۔۔ہم نہ رہیں گے غم بھی نہ رہے گا
یہاں تک تو فیض کی جمالیاتی اور کسی حد تک پر جوش و پر عزم شاعری کا ذکر کیا ہے۔ مگر اب میں شاعر کے فنی سفر کے ساتھ ساتھ ان کی شعریت پر بھی کچھ ذکر کروں گا۔ فیض کے ہاں غنائیت کا پہلو کیسے آیا؟ ظاہر ہے غنائیت اقبال کے بعد فیض کی شاعری کی درخشاں مثال ہے جس کی وجہ سے ان کے اشعار گلو کاروں کی توجہ کا مرکز رہے۔ اس کے متعلق فیض لکھتے ہیں
"ہم دن کو کالج جایا کرتے تھے اور شام کو خورشید انور کے والد خواجہ فیروز الدین کی بیٹھک میں بڑے بڑے استادوں کے گانے سنتے ان استادوں کے ہم عصر رفیق غزنوی تھے بس وہی سے ہمیں حظ اندوز ہونے کا موقع ملا۔
غرض یہیں سے شاعر کی موسیقیت سے وابستگی ہوئی اور وہ ترنم کے نشیب و فراز اور تال ، سر اور ساز کی آوازوں سے واقف ہوئے۔ شاعر چوں کہ آدھا موسیقار بھی ہوتا ہے بحروں کے تنوع اور پھر انھی خوبصورت الفاظ کی نشست و برخاست کے ساتھ نبھانا اس کا فنی خاصہ ہوتا ہے اس لئے شاعر کا ان سے واقف ہونا ناگزیر امر ہے، جس کے بغیر شاعر کی شاعری نغمہ خام ہے جو وقتی طور پر عقل میں تو گونج پیدا کر لیتی ہے مگر دل کو تسخیر کرنے سے عاری ہوتی ہے۔ فیض کے کلام میں غنائیت کے متنوع تجربات دراصل "زنداں نامہ” سے شروع ہوتے ہیں. یاد رہے زنداں نامہ اس دور میں لکھی گئی تھی جب فیض قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب فدایانے حریت پر حکومت کی طرف سے سخت دباؤ تھا اور سجاد ظہیر سمیت فیض کو منٹگمری جیل میں قید رکھا گیا بعد ازاں انھیں کراچی اور میاں والی جیل میں منتقل کر دیا گیا اور جب حکومت کا کوئی الزام ثابت نہ ہوا تو صورت حال یوں ہوئی۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو سب سے ناگوار گزری ہے
یہ 1953ء سے 1955 تک کی لکھی ہوئی ایسی شاہکار نظمیں ہیں جنھوں نے اردو شاعری میں نیا رجحان پیدا کر دیا اور ہم سب کے حافظے کا حصہ بھی ہیں ۔ انھیں نظموں میں الفاظ کا زیر و بم، مصرعوں کی تراکیب کی اونچ نیچ، اٹھاؤ بٹھاؤ، معنی و غنا کی ہم رشتگی، الفاظ کی جھٹکاریں سب اصناف بدرجہ اتم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ میں چند نظموں کی شعریت پر بات کرنا مناسب سمجھوں گا، پہلے دور (دست صبا) کی نظموں میں ” شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں” اس کے آہنگ کی تندی اور زنداں نامہ کی چند غزلوں جیسے "کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں” میں بڑا فرق محسوس ہوتا ہے تجربے کے اعتبار سے بھی اور فنی مہارت کے اعتبار سے بھی۔ موسیقی کے س شعور نے فیض کو ایک نیا پیٹرن عطا کیا اور فیض کی نظموں میں پھرتی پیدا ہو گئی۔ یہ دور عروضی حوالے سے بھی فیض کے ناقدوں اور مبصروں کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ اس طرح مشہور نظموں جیسے ملاقات ، پاس رہو، صبح آزادی ۔۔۔جس میں شاعر نے عروضی طور پر چھیڑ چھاڑ بھی کی ہیں جیسا کہ فیض نے بھی کہا ” جہاں مجھے محسوس ہوا وہاں میں نے بحر میں رکن بدل دیا اور بدیعاتی حربوں کا بھی استعمال کیا
محض یہ ہی نہیں بلکہ شعری زمیں میں جہاں قافیہ تنگ کرتا ہے وہاں اسے نکال کر محض ردیف سے بھی کام چلا لیتے ہیں۔ قافیوں، ردیف اور بحور کے س استعمال سے کلام میں، ترنم میں اور لحن کا استحکام پیدا ہوا ہے۔ چند مثالیں دیکھیے
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب ہات میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
یا پھر
آ جاؤ میں نے سن لی تیرے ڈھول کی ترنگ
آ جاؤ مست ہو گئی میرے لہو کی تال
اور توقفات اور لحن کے اعتبار سے سب سے بہترین مثال فیض کی نظم ” ایرانی طلبہ کے نام ” ہے یہ کون سخی ہیں جن کے لہو کی اشرفیاں چھن چھن چھن چھن دھرتی کے پیہم پیاسے کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں کشکول کو بھرتی جاتی ہیں ۔یہاں pauses, mini pauses سے نظم کا آہنگ دوبالا ہو گیا ہے اور معلوم ہو رہا ہے جیسے شاعر الفاظ کی جھٹکار بجا رہا ہے تراکیب کو لبھا رہا ہے ۔ غرض یہ تو ہے فیض کی شاعری کا مختصر فنی تجزیہ۔ بعض ناقدین فیض یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اختر شیرانی اور فیض کی شعریت میں بڑی مماثلت ہے ۔ اگر رومانی شاعری کے تناظر میں دیکھیں تو اس پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ذکر کر چکا ہوں کہ فیض کے ابتدائی کلام میں انگریزی ادب کی عمیق چھاپ موجود ہے۔ اسی طرح س دور میں اختر شیرانی کی شاعری بھی اردو ادب پر اپنے اثرات مرتب کر چکی تھی۔ مگر ایک بات قابل غور ہے اختر شیرانی سی روایتی صنعت پر چلتے رہے مگر فیض نے نئے تجربات کئے۔ مگر فیض کے ہاں رومانیت انقلاب سے آشنا ہو جاتی ہے۔ اختر شیرانی نے محبوب کو تن نازک ، قوس ابرو، زلف خم دار پر قصیدے باندھے مگر وہ اس بات کے بھی دعویٰ دار تھے کہ انھوں نے انقلاب کو رومانوی شاعری میں شامل نہیں ہونے دیا۔ بس یہی وہ فرق ہے جہاں فیض اور اختر میں نمایاں فرق پیدا ہو جاتا ہے کیوں کہ فیض نے 1960 میں ایوب خان دور میں جلا وطنی کاٹی اس لئے ان کے ہاں شاعری کے عمومی استعارات اور معنوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک” عاشق "وہ انقلابی ہے جو اپنے معشوق یعنی وطن پر جان دے رہا ہے اور رقیب ان کے ہاں سامراج اور سرمایہ دار ہے ان استعارات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان اشعار کو ملاحظہ فرمائیں تو بات واضح ہو جاتی ہے
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ ۔۔۔زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
پھر 1964ء میں وہ وطن واپس لوٹ آئے اور کراچی کے عبداللہ ہارون کالج کے پرنسپل ہو گئے ۔ اسی دور میں ذوالفقار علی بھٹو نے فیض صاحب کے لئے منسٹری آف فارن افیئرز کا اعزاز دلوایا اسی دور میں فیض نے ڈھاکا میں تشدد اور بربریت کے خلاف شاہکار نظمیں لکھیں اور تقسیم کے بعد کہا
ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی مداراتوں کے بعد۔۔۔۔۔
1979 ء میں جب معلوم ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی ہے فیض بھی ملک چھوڑ کے بیروت چلے گئے ۔
فیض کے کلام کی کچھ نمایاں خصوصیات یہ بھی ہیں کہ وہ اسلامی شخصیتوں سے بھی والہانہ محبت رکھتے تھے باوجود یہ کہ وہ کمیونسٹ تھے انھوں نے ” مرثیہ امام” اور "نعت” لکھ کر اپنے عقائد سے والہانہ عقیدت کا بھی اظہار کیا ہے۔ جب فیض سے خوشبو کی سنت کا پوچھا گیا تو فیض نے کیا مثبت جواب دیا کہ وہ خود بھی اسلامی کلچر سے تعلق رکھتے ہیں اس حوالے اسے ان کا شعر ملاحظہ ہو
الحمد قریب آیا غم عشق کا ساحل
الحمد کہ اب صبح شہادت ہوئی نازل۔۔۔۔
الغرض فیض کے کلام کا جتنا اور جتنی بار مطالعہ کیا جائے کم ہے۔ وہ جہان معنی کی کہکشاں ہے، نئے اسلوب کا بانکپن ہے انفرادیت اور جدت کا حسین آمیختہ ہے۔ دنیائے ادب کا یہ آفتاب روشن سن 1984 میں غروب ہوا اور اپنا فنی ورثہ آنے والی کئی نسلوں کے لئے چھوڑ گیا۔