مُجھے ہے حُکمِ اذاں لا الہ الا اللّٰه
چھبیسویں آئینی ترمیم منظور ہوگئی۔ خدا کا شکر ہے کہ ایک جمہوری عمل تو بحال ہوا۔ وگرنہ اِس مُملکتِ خدا داد میں ہر جانب نا امیدی کے ساۓ ڈیرے ڈالے نظر آتے ہیں۔جب ہم بات کرتے ہیں کہ ترقی کیا ہے۔ اس پہ کہتے ہیں کسی مُلک کی ترقی کو دیکھنا ہو تو اُس ملک کی عدالتوں کو دیکھ لیں۔ہر جانب سے سوال ہورہے ہیں۔ کُچھ کی وجوہات ہیں مگر کُچھ بے وجہ، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اس ترمیم نے ثابت کیا ہے کہ مُلک میں جمہوری اقدار واپسی کی جانب گامزن ہیں
سوال ہورہا ہے طریقے پہ، کہ آخر ایک آئینی ترمیم کیوں اور کیسے، بلا سوال و ناغہ منظور ہوگئی۔ شاید سیاست دانوں کو بھی سمجھ آگئی ہے کہ عدالتوں کا تشخص بحال کرنے میں بہتری ہے۔ مگر یہ خیال پچھلے 76 سالوں میں کیوں نہیں آیا؟ بلخصوص تب ہی کیوں ناعاقبت اندیشوں کو کیوں نہیں آیا جس وقت نظریہ ضرورت پیش کیا گیا تھا؟ کسی کے پاس کیا اِس کا کوئی جواب ہے؟ حاشا وکلا۔
شاید جواب ہے مگر جواب دینے میں کمی و کوتاہی برتی جارہی ہے اور جواب کو تاریخ کے طالب علموں کو تاریخ کے پنوں میں ڈھونڈنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ جواب تو سب کے سامنے ہے۔ بس جواب دینے کی ہمت نہیں ہے۔
اگر اس آئینی ترمیم کو پڑھیں تو پہلے صفحے تو نہایت خوش آئند معلوم ہوتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کے قوانین، پہلے بھی تھے، مگر اس پہ مزید عمل درآمد کرنے کیلئے کاوش نظر آتی ہے۔ مگر اصل بات آگے ہے۔
دو نظریے جو اس ترمیم پہ ابھرے ہیں، ان میں سے ایک کے ماننے والے بھی ایک جماعتِ خصوصہ و مخصوصہ کے حامی و ناصر ہیں تو دوسرے نظریے کی بابت بھی کُچھ اور نہیں کہا جاسکتا۔ دونوں کے حامی بڑے پُرجوش ہیں۔ مگر سچ تو کہیں ایک جانب ہی ہوگا۔
قانون دانوں میں بھی دو ہی راۓ سامنے ہیں۔ ایک راۓ کے مطابق تو اب جو ماضی کے داغ و دھبے لگتے رہے ہیں عدلیہ پہ، جس میں ایک پسر عزیز کا کسی کے ٹکٹ بیچنے تک کا معاملہ تھا جس کے بعد اگلے کے والدِ گرامی کو اعلیٰ عہدہ ملا۔ ایسی تمام تر پریکٹس پہ پابندی ہوگی۔ عدلیہ ریاست کا عضو ہوگی اور مفاد پرستی پہ مبنی فیصلوں کے باب یقیناً بند ہونگے۔ ایک نئی آئینی عدالت ہوگی جو ہر فیصلے پہ بلا تعصب نظرِ ثانی کرے گی۔ خیر یہ تو تھیں تمام تر اچھی باتیں۔
دوسری جانب کا پہلو جانیے تو نہایت خوفناک ہے۔ کسی بھی مُلک میں چلے جائیے تو وہاں پہ ایک ہی بڑی عدالت ہوتی ہے جس کے پاس نظرِ ثانی کرنے کا اور عوام کو انصاف کرنے کا آخری اختیار ہوتا ہے۔ یقین نہیں آتا تو بھارت چلے جائیے۔
بھارت میں بھی ایک ہی سپریم کورٹ ہے۔ جو وہاں انصاف کی آخری مسند ہے۔ یہاں پہ، اس آئینی ترمیم نے، اور کُچھ نہیں مگر انصاف کے حصول کو مزید لمبا کردیا ہے۔ سب سے بڑھ کر، سپریم کورٹ کی حیثیت کم ہوگئی ہے۔ سپریم کورٹ کی حیثیت ہائی کورٹ سے زیادہ نہیں رہی۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ غریب کیلئے قانون کا حصول آسان ہو۔ یہاں جس ملک میں عدالتوں میں کیس، کروڑ سے اوپر زیر سماعت ہوں اور کیسوں کی پیروی کرنے والی کئی نسلیں زیرِ زمین چل بسی ہوں، ایسے میں یہ اقدام انصاف کی ترسیل کو لمبا کرنے کے مترادف ہے۔
گو کہ پاکستانی سیاست میں اس بابت چرچا ہے کہ اب کوئی جج سیاسی پُشت پناہی کے بغیر اور غیر جانب دار ہوکر آۓ گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک آدمی کیلئے انصاف آسان ہوگا؟ کیا عدالتوں کی جانب جب کوئی شخص رُخ کرے گا اُس وقت وہ شخص اپنی استطاعت کو دیکھے بغیر انصاف کے حصول کیلئے لمبی لائنوں میں لگے گا یا اُس نے اس نظام کے پرانے اوقاتِ کار ہی کے مطابق کمر کسنی ہے؟
اصل پسنے والا طبقہ تو غریب کا ہے۔ انصاف کا دروازہ جن کیلئے بند تصور ہوتا ہے۔ جن کا کوئی قتل بھی ہوجاۓ، تو ہمارے انصاف اتنا خوبصورت ہے، کہ مقتول کے سامنے والا گواہ بھی اپنی جان کے ڈر سے مُکر جاۓ گا۔ جس دن اس مُلک میں گواہ، اپنی جان کے خطرے کے بغیر گواہی دیں گے، سچ بولیں گے، تب بات بنے گی۔ جس دن یہ تصور بدل گیا اُسی دن عوام کی جیت ممکن ہوگی۔ وگرنہ صورت ترامیم نے کوئی خاص کلیدی کردار ادا نہیں کیا