قومِ آزاد
پارا چنار میں عرصہ سے میڈیا پہ پابندی ہے۔ وہاں قتلِ عام ہوجاۓ تو اُس کی خبر تک ہمیں دینا یا سُننا پسند نہیں۔ شدت پسندوں کی جانب سے ناکہ بندی ہے، عرصہ قبل وہاں کے علاقہ مکین وہاں سے اپنے وطن پاکستان آنے کی خاطر، افغانستان میں سے گُھوم کر آتے تھے۔ لیکن ہمارا بیانیہ ہے کہ ایسا کچھ تو وہاں ہو ہی نہیں رہا۔ زمین کا تنازعہ کہہ کر بات ٹالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر اس بات کو ماننے کو کوئی تیار نہیں کہ جہاں فاٹا انضمام کے بعد وہاں پہ پاکستان کے آئین پہ عمل درآمد ہونا چاہیے تھا، وہاں پہ آج بھی جہالت پہ مبنی جرگوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔
ہم ایک آزاد قوم ہیں۔
عرصہ قبل بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو قتل کردیا گیا۔ بے دردی سے قتل ہونے والوں کو اپنا گناہ نہیں پتا تھا، مارنے والوں کو سزا دینے کیلئے شناختی کارڈ پہ لکھا ہوا ایڈریس ہی کافی تھا۔ دوسری جانب، اُسی بلوچستان کے مکین ہزارہ قوم سے تعلق رکھنے والے 11 سپوت کچھ ہی عرصہ قبل، کھنڈی چُھری سے ذبح کردئیے گئے۔ لاشیں سڑکوں پہ پڑی رہیں، وقت کے صاحبِ اقتدار نے وہ باتیں کیں جو بعد میں خود اُن کے گلے پڑ گئیں۔ پھر جو وعدے ہوۓ اور پھر جانے دیا گیا۔ کیا انصاف تھا سبحان اللّٰه !کیونکہ
ہم ایک آزاد قوم ہیں۔
ہر سال ایک سانحہ ہوتا ہے، ہر لمحہ ایک سانحہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ لیکن اس دوران گزرنے والا ایک ایک پَل امن کا دورانیہ کہلاتا ہے۔ کیونکہ
ہم ایک آزاد قوم ہیں۔
غریب ہمیشہ سے پِس رہا ہے۔ نوجوانوں کے پاس نوکریاں نہیں، امیر طبقہ امیر ہورہا طاقتور حلقے مؤثر ہورہے، آزادی اظہارِ راۓ کیلئے دئیے گئے قوانین ردی کی ٹوکری کا حصہ بن چکے ہیں مگر ہم لوگوں کو فرق نہیں پڑتا۔ ہم بے حس ہوچکے ہیں۔ہمارا حال یہ ہوچکا ہے کہ سڑک پہ مریض پڑا تڑپ رہا ہو۔ ہم لوگ ویڈیو بنا لیں گے مگر امداد نہیں کریں گے۔ کہ کہیں مرگیا تو ہمارے حصے میں نہ پڑ جاۓ۔
نوجوان نسل کو ہر وقت نئے ٹرک کی بتی کی پیچھے ڈالنے والے عظیم مفکروں، دانشوروں، اور موٹیویشنل سپیکروں نےیہ کبھی نہیں بتایا کہ حقوق کیلئے جد و جہد کرنی پڑتی ہے۔
جو کچھ گورے کا ہے وہ سب ٹھیک ہے اور اُس کو اپنے اوپر لاگو کرنے سے ہم لوگ بھی کامیابی کے سفینے پہ تیر کر اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے مگر معاشرتی بنیادی فرق کو جاننے و سمجھنے سے معذور یہ قوم، یہ بھول جاتی ہے، کہ "کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا”۔
اس سب کے باوجود ہم سب ایک ہیں، ہر برائی کے خلاف لفظی جنگ کرتے ہیں، خود کو پاک تصور کرتے ہیں۔ خیالوں کی زندگی میں ہر چیز میں آگے ہیں۔ مگر حقیقت دیکھی جاۓ تو ہم وہیں پہ کھڑے ہیں۔
مگر ہمیں کیا، چاہے صدیاں بیت جائیں، چاہے ہمارا لہو کوڑیوں کے بھاؤ بکتا رہے، چاہے انصاف ہمیں نہ ملے، ہم نے دوسروں سے امیدیں وابستہ کرنی ہیں کہ وہ ایک مانندِ مسیحا ہمیں آکر بچا لیں گے۔ خود کُچھ نہیں کرنا۔
کیونکہ
ہم قومِ آزاد ہیں۔